اپنی انتخابی مہم کے دوران جس نکتے پہ صدر ٹرمپ کا سب سے زیادہ زور تھا وہ امریکہ کی رو بہ زوال معیشت کو سہارا دینا تھا۔ پچھلے چند برسوں سے امریکی بجٹ خسارے میں جارہا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اندرون ملک ویلفیئر پروگراموں میں کٹوتی ، مہاجرین میکسیکو کی آمد روکنے کے لئے دیوار کی تعمیر اور حکومتی اخراجات میں کمی ، نیٹو ممالک کو اخراجات میں برابر کی حصہ داری اور فلسطین کے لئے امداد کی تنسیخ کے علاوہ بیرونی محاذوں پہ امریکی افواج کے افغانستان اور شام سے انخلا کا اعلان کیا جنہیں ایک ایک کرکے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے پینٹا گون کا بجٹ تین سو بلین ڈالر تک کم کردیا ہے اور غالبا امریکی تاریخ میں پہلی بار پینٹاگون کا آڈٹ ہوا ہے ۔گو اس آڈٹ میں کوئی قابل ذکر ہیرا پھیری ظاہر نہیں ہوئی جو کہ ہونی بھی نہیں تھی لیکن اسلحہ ساز کمپنیاں اور ان کے سرپرست جرنیل صدر ٹرمپ پہ کافی برہم ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں صدر ٹرمپ کے اقتدار کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو اپنی پرائیویٹ عسکری تنظیموں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کے ساتھ افغانستان اور شام سے امریکی افواج کی واپسی نہیں چاہتے حالانکہ صدر ٹرمپ دنیا بھر میں امریکی اسلحے کی فروخت کے حوالے سے کامیاب ہوئے ہیں اور انہوں نے بھارت اور سعودی عرب کے ساتھ بڑے دفاعی معاہدے کئے ہیں ۔جمال خشوگی قتل کے بعد سعودی عرب پہ بے پناہ سیاسی دباو کے باوجود دفاعی معاہدے منسوخ نہیں کئے گئے جو ان اسلحہ ساز کمپنیوں کو قبول نہیں تھا لیکن سعودی عرب پہ اس حوالے سے بے تحاشہ دباو ڈال کر اسے شام کی تعمیر نو اور بحالی کا خرچہ اٹھانے پہ راضی کرلیا گیا ہے۔اپنی کرسمس ٹویٹ میں صدر ٹرمپ کہتے ہیںکہ شام کی بحالی کا کام سعودی عرب جیسے امیر ممالک کریں گے۔ امریکہ کیوں کرے جو شام سے پانچ ہزار میل دور بیٹھا ہے۔ امسال اگست میں بھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اب امریکہ شام کی تعمیر نو کے لئے مختص 320 ملین ڈالر خرچ نہیں کرے گا بلکہ یہ رقم امریکی عوام اور دفاع پہ خرچ کی جائے گی۔ تب ہی سعودی عرب سے یہی رقم اسی مد میں دھروالی گئی تھی۔ گو سعودی عرب اور وائٹ ہاوس دونوں اس کا انکار کرتے ہیں کہ اس متعلق دونوں ملکوں کے درمیا ن کوئی نیا معاہدہ ہوا ہے کیونکہ سعودی عر ب پہلے ہی شام میں ان علاقوں کی تعمیر نو کے لئے مذکورہ رقم کے علاوہ سو ملین ڈالر مختص کرچکا تھا لیکن ٹرمپ اپنی ٹویٹ پہ قائم ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب پہ دباو ڈالا گیا ہے۔افغانستان اور شام سے امریکی افواج کا انخلا گو صدر ٹرمپ کے اخراجات کی کٹوتی کے اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن ان کی وجوہات اور پس منظر دونوں خطوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو بات اتنی سیدھی نہیں ہے جتنی نظر آرہی ہے۔ طالبان کس شرط پہ مزاکرات پہ راضی ہوئے ہیں یہ نکتہ اہم ہے کیونکہ اصل فریق تو وہی ہیں۔حق تو یہ ہے کہ طالبان سے حکومت ظالمانہ طریقے سے چھینی گئی تھی اور وہ ایک قانونی حکومت تھی چاہے اسے چند ملکوں کے سوا کسی نے تسلیم نہ کیا ہو۔ اب یہ تو بعید از قیاس ہے کہ طالبان کو حکومت واپس دے دی جائے اور بھارت کے پڑوس میں ایک بار پھر ایک پرو پاکستان حکومت قائم ہوجائے۔اگرچہ اس دوران طالبان اور پاکستان کے درمیان تلخیاں بہت بڑھ گئی تھیں لیکن عمران خان چونکہ طالبان کے حوالے سے دو ٹوک اور نرم موقف رکھتے آئے ہیں اور طالبان دوست شہرت رکھتے ہیں اس لئے مسئلے کے حل کے لئے بہترین وقت اور مناسب ترین شخص وہی ہیں اور یہی بھارت کے خلجان کی وجہ بھی ہے جو موجودہ تناظر میں افغانستان میں اپنی بھاری سرمایہ کاری کے باوجود نظر نہیں آتا لیکن ایران کے پردے میں وہ موجود ہے۔ حال ہی میں ایران نے چاہ بہار کا کنٹرول بھارت کے حوالے کردیا ہے جو بھارت کو نہ صرف وسطی ایشیا تک رسائی دے گا بلکہ پاکستان اور چین کے لئے تزویراتی خطرہ بھی ہے۔اسی خطرے کے پیش نظر امریکہ نے کئی ماہ سے معطل بحری بیڑہ John C. Stennis خلیج فارس میں اتار دیا ہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے۔یہ بحری بیڑہ بظاہر ایران کو آبنائے ہرمز کی بندش سے روکنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے لیکن درحقیقت اس کا مقصد چین اور پاکستان کی نگرانی اور بھارت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ایسے میں یہ ناممکن ہے کہ افغانستان پہ پاکستان دوست طالبان کا کنٹرول برداشت کرلیا جائے۔موجودہ مزاکرات کا ڈول ڈالا ہی اس لئے گیا ہے کہ مل بانٹ کر ایک قومی حکومت قائم کرلی جائے یعنی اگلے الیکشن میں ملا منصور اور ذبیح اللہ مجاہد ووٹ مانگتے نظر آئیں۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ امریکہ افغانستان سے ایک شرط پہ نکلے گا اور وہ ہوگی افغانستان میں پہلے سے موجود اپنے چھ عسکری اڈے ختم کرکے اخراجات کی کٹوتی اور ایک مستقل امریکی اڈے کا قیام اور طالبان کی طرف سے اس کے تحفظ کی ضمانت ۔ ایسا ہواتو طالبان کی ساری آئیڈیا لوجی اگلے الیکشن کے بیلٹ بکسوں میں دفن ہوجائے گی اور مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے گا بشرطیکہ امریکہ پاکستان کی طرز پہ افغانستان میں ڈرون حملے نہ کرے۔اس امریکی اڈے کی موجودگی پہ چین کے تحفظات ہیں لیکن وہ طالبان کو مزید برداشت کرنے پہ بھی تیار نہیں جو واخان کوریڈور تک پہنچ گئے ہیں جو سنگیانگ سے گزرتا ہے۔دوسری طرف امریکہ نے حسب معمول چالاکی دکھائی ہے اور افغانستان میں اپنی افواج کم کر کے بلیک واٹر جیسی تنظیموں کو افغان فورسز کی تربیت پہ مامور کیا ہے ۔کابل میں موجود امریکی اڈاکیمپ انٹیگریٹی دراصل بلیک واٹر کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اسی تنظیم نے اشرف غنی کو وہ اعتماد دیا ہے جس کی بنیاد پہ وہ امریکی انخلا پہ راضی ہوئے ہیں۔ حال ہی میں بلیک واٹر نے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مزید نفری تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم واپس آرہے ہیں کے نام سے ایک امریکی جریدے میں ایک صفحاتی اشتہار بھی دیا ہے۔بلیک واٹر سمیت دیگر نجی عسکری تنظیموں میں جن میں اسرائیلی تنظیمیں بھی شامل ہیں امریکی دفاعی اخراجات کم کرنے میں مدد دی ہے کیونکہ وہ اپنے اخراجات خود اٹھاتی ہیں البتہ اس کا مناسب مشاہرہ پینٹاگون سے وصول کرتی ہیں دوسری طرف انٹیلیجنس میں شراکت داری کے طفیل جو سیاسی تحفظات سے بالاتر ہوتی ہے طالبان کے خلاف زیادہ موثر اور بھرپور کاروائیاں انجام دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف مزاکرات کا شور مچایا جارہا ہے دوسری طرف طالبان کمانڈروں کو فضائی حملوں میں چن چن کر مارا جارہا ہے اور یہی صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی ہے۔اس طرح صدر ٹرمپ اخراجات میں کمی کرنے میں بھی کامیاب ہونگے اور طالبان کا اس وقت تک صفایا کرتے رہیں گے جب تک مزاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوجاتے۔شام سے امریکی افواج کے انخلا کا کیا مقصد ہے اس پہ اگلے کالم میں بات ہوگی۔ (جاری ہے)